رمضان: سامراجیت کی مخالفت کرنے کا مہینہ

اپنے وجود کی قیمت کے طور پی مسلمانوں کو مسلسل ایک دفاعی صراط میں جینے کی عادت ہو گی ہے جسمے اپنے مذہبی اور ثقافتی روایتوں کی تزئی تشریح کرنا زندگی کا اہم حصّہ بن چکا ہے- دورے حاضر کے متنوع معاشروں میں امن قیام رکھنے کے لئے ایسی سراتے حال شاید قابلے قبول ہے لیکن رمضان جاری ہونے کے ناتے یہ نظرانداز نہی کیا جا سکتا  کے اسس ماہ کے فائدوں کو بیان کرنے کے ڈھنگ میں ایک جدیدی رنگت ہے- ان فیدوں کی ہم اثر تبلیغ رمضان کے اخلاقی اور غیر مادّی جوہر کو غفلت کرکے ہمارے سامنے صرف مجسسامی مزاحتوں کو پیش کرتی ہیں- روزہ یا ٹوہ “مسکین کی غربت کو محسوس کرنے کے لئے” رکھا جاتا ہے کیونکی یہ بات زندگی کو صرف موادی نظریے سے دیکھنے والی مغربی اخلاقیات کو پسند آتی ہے یا پھر روزہ اسے جوڈ ہیو سہتی  فائدوں کے لئے رکھا جاتا ہے کیونکی یہ سائنس نے توصیف کے ہیں- حلانکی یہ دونو باتیں ترگیبے روزہ کو بیان کرتی ہیں لیکن انسے رمضان کی اہمیت صرف جسمانی رقبے میں قید ہو کر رہ جاتی ہے۔‎  

صارفیت کے ذرے روایتی اخلاقیات کا دھندلا ہونا 

اسس منظر نامے میں ایک گہری اور مزید نقصاندہ قوّت ہے: بارہ عالمگیریت ہمارا سرمےداری میں جذب ہونا- کارپوریشنزاب مالیت, گوشت اور کپڑوں پر حلال کا لیبل لگاتے ہیں تاکے مسلمان خریدار انکی طرف متجے ہو سکے- جو مصنوعات مسلمانی کھپت کے لئے موجود ہیں وو انہیں استحصالی, سود قور, سلب انسانیاتی اور غیر اسلامی نظاموں کا نتیجہ ہیں جنکی ہم مذمّت کرتے رہتے ہیں- ہمارے کپڑے استحصال ہی مزدوری سے, ہمارا خانہ نواح کو گندا کرنے والے صنعتی مقتلوں اور کیمیائی پودھوں سے اور ہماری مالیت سود قور اور دھوکےباز اعلامی بنکنگ نظام سے آتے ہیں- جس دور میں ان چیزوں کو تراققی کا نام دیا جاتا ہے وہاں انمے چھپی ہی خامیوں کو پہچاننا مشکل ہے- آزاد خیالی ہمارے رواجوں کے فلسفی اور اخلاقی جوہر کو ردد کردیتی ہے۔‎     

 مہرے سماج، میکس ویبر نے کہا  ہے کے “لوہے کے پنجرے” میں قید ہم بے معنی حرکتوں میں مبتلا رہتے ہیں اور پھر انہی حرکتوں پر ہماری آزادی میں رکاوٹ بننے کا الزام لگاکر انکے خلاف بغاوت کرتے ہیں- ہمنے آزادی کی کوئی حدد مقرّر نہی کی ہے- اسی آزاد خیالی نے رمضان کی اہمیت کو سستی بازار کاری اور موادی فلسفوں سے ردد کیا ہے۔‎ 

رمضان نہایت بسر خوری اور صارفیت کا بھی سامنا کرتا ہے- بینظیر تجارت کاری اور مادّ پرستی کے بیچ رمضان سرمےداری سے آزاد زندگی کی یاد دلاتا ہے- ایسی زندگی جہاں خود کو مطمین کرنے کے لئے مسلسل کھپت کی ضرورت نہی ہوتی- اسس ماہ کے دوران خدا کا حکم اور حضر کی سیرت ہمارے خانے کی خواہش کو مددھم کرتی ہے- ہمے جسمانی بھوک کے بجے معاشرے کی روحانی اصلاح پر توجہ دینے کی توفیق ملتی ہے- لیکن افسوس کی بات یہ ہے کے رمضان کے اس خوبصورت پیغام کو بھلا کر افطار کو بسر خوری کا موقع بنا دیا گیا ہے- مک ڈونالڈ’س، کوکا کولا اور برگر کنگ جیسی کارپوریشنزکے رمضان سے مطلق استھرار رنگ رنگی کا جشن منانے کا دکھاوا کرکے اسراف کا ماحول بناتے ہیں- سبسے زیادہ سماجی اور معاشی ناهمواری مسلمانی اکثریت والے ملکوں میں ہے- ہمنے اسراف کے ذرے جو مثبت پیدا کی ہے اسکا اندازہ سعودی عرب میں بڑھتے موٹاپے کا موازنہ صومالیہ کی بھوکماری سے کرنے پر ہو جاتا ہے۔‎  

جدیدی دنیا کی مایوسی

ویبر کا ماننا ہے کے جدیدی زندگی نے ایک ایسا معاشرہ قیام کی ہے جہاں غیر مادی اور روحانی عنصروں کی جگہ صرف بروھانی اقلیت نے لے لی ہے- اب سب کچھ غیر مقدّس بنا دیا گیا ہے- جو تہذیب کی نشانیاں اور روحانیت کی رسمیں تھی انکا دینی جوہر مر چکا ہے۔‎ 

رامزن اسس غیر مقدداسی خلقیا سے انکار کرتا ہے- اسس ماہ کی اہم بات یہ ہے کے یہاں ہمارے دن پر ٩ سے ٥ والی سناتی گھڑی کے بجے خدرتی گردش کی حکومت ہوتی ہے- رامزن کا آغاز ریتے ہلال سے ہوتا ہے اور ہمارے روزے فجر سے شرو ہوکر غروبے آفتاب پر ختم ہوتے ہیں- ہمارا سورج اور چند کی گردش کو تسلیم کرنا صرف خدرت کے ساتھ ہم آہنگی کی ہی نہی بلکے الله کو ہر چیز کا خالق اور ملک ماننے کی نشانی ہے- جدڈیڈی دنیا نے ہماری مرضی کو توڑ مَروڑ کر ایسی زندگی کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے جہاں ہمارا ہر دن گھنٹوں کے حساب سے مزدوری کرنے میں نکلتا ہے- ہمارا وجود اتنا سستا نہی ہے کے اسکو مادّ پرستی کے حوالے کر دیا جائے- رمضان ہمے اپنے بڑے مقصد کی یاد دلاتا ہے۔‎

لیکن ہم غافل لوگ رمضان کے سبق کو بھول کر عید آنے پر ایک بار پھر اپنی پرانی حرکتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں- عالمے جدیدیت اور عالمے اسلام کے بیچ کرتب کرتے ہوئے انسان کی کشمکش کو ال جزایری مہرے سماج،  ملک بنببی نے پہچانا ہے- بننبی فرماتے ہیں کے کیسے جدیدی انسان مسجد میں داقل ہوکر الله کے اِقْتِدار کی اِطاعَت کرتا ہے لیکن یہی انسان مسجد سے بہار جاتے ہی واپس بعدتہذیب، مقلوق کا غلام اور عادتوں میں غیر مسلمانو سے بے شناخت ہو جاتا ہے- جدیدی دنیا کے رواجوں نے اسلام سے غفل ہونے کی چاہت میں اضافہ کیا ہے- لیکن امّت کو اپنے اصولوں کے مطابق جینے کے لئے ایسی زندگی سے انکار کرنا ہوگا جہاں ہم ثقافت  کا بہانہ لیکر سرمےداری میں جذب ہوتے جارہے ہوں۔ 

ہم رمضان کے جوہر کو کھوتے جا رہی ہیں اور اسکی سبسے اہم وجہ مادّ پرستی کے نشے میں بکھرتا ہوا امان ہے- مغربی دنیا میں اخلاقیات کی تباہی کا اثر دنیا بھر کے مسلمانوں پر بھی پڑا ہے- ہمنے اپنے امان کو گاربی فروخت کے لئے اسس طرح پیش کر دیا ہے جس طرح استعمار کے دور میں بھی ممکن نہی تھا- ہم مغربی ملکوں میں اخلیت کی طرح رہتے ہیں اور اسلام کی روح کو کھو دینے کی وجہ سے گاربی رہیں صحن کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔

رمضان بسر خوری،  صارفیت اور خود اپنی زندگی کا ملک بننے کے جنوں کو ٹھکراتا ہے جو جدیدیت نے ہمارے اپر تھوپے ہیں- مسلمان اور غیر مسلمان دونو ہی جدیدی دنیا سے مایوس ہو کر اپنا مقصد دھند رہے ہیں- ایسا مقصد جو بے معنیٰ مصنوعات کی کھپت کی جگہ لے سکے- رمضان ہمے خدا سے لو لگانے کا اور وقت،  معاشرے اور قدرت کے ساتھ اپنے تعلّق کو بدلنے کا موقع دیتا ہے- ہم تقویٰ تبھی حاصل کر سکتے ہیں جب ہم اپنی نفس اور ضرورتوں کو قابو کر کے فوقانی وجود کو پانے کی کوشش کریں۔ 

اسس سرسری زندگی سے اپنی روحانیت کو واپس لینے کے لئے ہمے امان اور عبادت کے معاملات کو خشک تعلیمی تجزیوں آور سوشل میڈیا کی ناپایدار دینیات سے بہار نکل کر سمجھنا پڑیگا- ہمے سرمےداری اور افادیت پسندی کو ردد کرنے کے لئے اسلام کے مجموعی فلسفے کو بحال کرنا چاہیے- ہمے اسلام کو اپنی زندگی کا مرکز بنانا ہوگا- رمضان ہماری روحانیت کو دوبارہ جوان کرتا ہے اسلئے اسکی اہمیت کو صرف ایک سالانہ تقریب تک قید کرنا ٹھیک نہی- اگر ہم رمضان کے اصولوں پر قیام رہے تو یہ روحوں کو تباہ کرنے والے سرمےدار نظام کو شکست دیگے. ایسا ہونے پر ہی ہم مسلمان ہونے کا دو کر سکتے ہیں جو صرف الله کے آگے جھکتا ہے۔  

Works Cited:

  1. Weber, Max. Protestant Ethic and the Spirit of Capitalism. Wilder Publications, 2018.
  2. Bennabi, Malek. Islam in History and Society. Kitabbhavan, 1999.
  3. Andrew Benett, Ann O’Reilly. “The End of Hyperconsumerism.” The Atlantic, Atlantic Media Company, 9 June 2015, www.theatlantic.com/business/archive/2010/07/the-end-of-hyperconsumerism/60558.

About the Author: Mariem is a civil society activist working for democratic governance & religious freedom in the Middle East and North Africa. She writes on critical political & social theory, comparative democracy studies, and Islamic & comparative religious studies. You can follow her on Twitter here.

This article was generously translated by Saniya Ahmad, an undergraduate student living in India. She studies Political Science and English Literature at the University of Delhi. Her interests include literature, history, political philosophy and Islamic political theology.

2 thoughts on “رمضان: سامراجیت کی مخالفت کرنے کا مہینہ

Leave a Reply