میکالے کے بچے : ہم اور زبانِ اردو

  پیشِ لفظ: میں نے درجِ زیل تحریر بِحیثیتِ سمندر پار پاکستانی لکھی ہے۔  اس مضمون کو ذاتی تنقید، کسی پر حملہ یا طنز نہ سمجھا جائ۔  اس مقالہ کا انگریزی ترجمہ بھی دستیاب ہے۔

نیز اس مقالہ کا رسم الخظ شاید نستعلیق نہیں ہوگا، اس ویبسئٹ میں کچھ خامیاں ہیں جن کا حل میرے بس سے باہر ہے۔

برِ صغیر پر حکمرانی کرنے والے برطانوی شرفاء کی فہرست بڑی طویل ہے۔  لیکن اس میں سرِ فہرست ٹومس میکالے ہونا چاہیے۔  میکالے وہ برطانوی استعماری حاکم تھا جس نے برِ صغیر میں انگریزی زبان کو ثقافتی اور علمی غلبہ دلوایا تھا۔   انیسوی صدی میں مقامی راوئیتی طرزِ تعلیم و علم کو ختم کر کے، اور انگریزی زبان کو غالب قرار دیتے وقت ، میکالے نے کہا 

ی صدی میں مقامی راوئیتی طرزِ تعلیم و علم کو ختم کر کے، اور انگریزی زبان کو غالب قرار دیتے وقت ، میکالے نے کہا: 

اب ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ایک ایسا طبقہ بنائیں جو ہم اور ہمارے لاکھوں محکوموں کے بیچ میں ترجمان ہو گا– یہ طبقہ رنگ اور نسل میں تو انڈین ہو گا مگر اپنے اذواق، آراء، اخلاق اور عقل میں انگریز ہو گا۔

یہ منظر مغربی استعمار کا اصل چہرہ ہے

اس اقتباس کا مطلب کیا ہے؟  کیا آپ کسی عرب یا ایرانی شخص کا (خواہ سمندر پار یا نہیں) تصور کر سکتے ہے جو اپنی زبان شاید بول تو لیتا ہو مگر اسے لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو؟ اور اسے سیکھنے سےبھی انکار کرتا ہو؟ یہ شاید ناقابلِ یقین ہے مگر پاکستان کے درمیانی اور اعلی سماجی طبقے میں، اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں بھی، یہ صورتِ حال بڑی عام ہے۔ لیکن اس چیز کا سب سے مایوس کن پہلو یہ ہے جب لوگ “مجھے اردو نہیں چاہیے”، “میں اردو کیوں سیکھوں؟” اور “یہ بہت زیادہ محنت طلب کام ہے، کیا فائدہ؟” کہہ کر، اردو سیکھنے، پڑھنے اور بولنے سے گریز کرتے ہیں۔

لیکن آخر ہم اردو کو اہمیت کیوں دیں؟ اس کے بارے میں کیوں سوچیں؟ جب کے پاکستان کی ایک بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے انگریزی زبان زیادہ آرام دہ اور آسان ہے۔ یہ منطقی ہوگا اگر ہم یاد رکھیں کہ آپ اسی زبان میں آرام دہ ہوں گے جو آپ شروع سے بولتے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہی تو ہے۔ ابتداء سے ہم انگریزی سیکھتے ہیں۔ ہم انگریزی پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ ہم انگریزی میں سوچتے اور بولتے ہیں۔ انگریزی میں ہی ہم تبصرہ و تنقید کرتے ہیں۔ اسی زبان میں ہم تحکیم کرتے ہیں اور اسی زبان میں مزاحمت بھی۔ انگریزی میں ہم خوشی مناتے ہیں اور انگریزی میں ہی ماتم۔یہاں تک کہ انگریزی میں ہی ہم خواب دیکھتے ہیں، اور انگریزی میں اس کی تعبیر تلاش کرتے ہیں۔ 

اور یوں اردو لمحہ بہ لمحہ اپنے طے شدہ اختتام کے طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم اردو بولتے ہیں، مگر کسی اجنبی سےکبھی پوچھیں: صرف ڈھانچہ ہی اردو/ہندی ہے، وگرنہ اس کے سارے اہم الفاظ انگریزی میں ہوتے ہیں۔ اسے اردو کہنا مذاق سے کم نہیں۔ آپکی زبان کس وقت تک آپکی ہے، اور کس وقت کسی اور کی سستی نقل؟ بہر حال، کچھ بھی ہو، یہ حقئقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اردو نا پئیدہ ہوتی جا رہی ہے، عہدِ رفتہ کی عظمت سے عاری، سیاسی، معاشی، علمی اور سماجی اہمیت سے محروم، اب صرف شاعرانہ اور مذہبی مواد تک محدود ہو کر رہ گی ہے۔

 اردو زندہ ہے، مگرعلی الاقل گھروں تک محدود، اب صرف ایک سادہ و سہل روزمرہ کے استعمال تک  محدود۔ اور علی الاکثر اردو اب صرف ایک علامتی مقام رکھتی ہے، کسی سابقہ عظیم و شان ورژت کا فرسودہ آثار۔ اصل کام تو انگریزی میں ہو رہا ہے۔ کچھ لوگ اعتراض کریں گے:”کیا بلاء ہے؟ اردو تو شاعرانہ زبان ہے، اور ہم اس کی قدر رکھتے ہیں!”۔ ہاں، اردو شاعرانہ زبان تو ہے، مگر کیا اردو کچھ اور بھی ہو سکتی ہے؟ کیا علوم، اکدیمیا، ریاضی، طب،جغرافیہ،‎ ہندسہ، شہری انتظامیہ، وکالت وغیرہ صرف انگریزی میں ہی ہو سکتے ہیں؟ کیا ‘ آیی طی’ اردو میں بھی ممکن ہے؟ یہ سوالات آپ کے لیے شاید عجیب و غریب، تکلیف دہ اور غیر معمولی  ہوںگے۔ کیا ایسا ہی نہیں ہے؟ شاید آپ نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں۔ در اصل اردو ایک مکمل زبان ہے، دیگر زبانوں کی طرح۔ یہ کسی بھی مقصد کے لئے مناسب ہو سکتی ہے، اگر ہم چاہیں تو۔ یہ آگے بڑھ سکتی ہے، اگر ہم چاہیں تو۔ یہ گلی کے کنارہ پر تشنہ مر سکتی ہے، اگر ہم چاہیں تو۔ یہ ہماری پےپرواہی اور بے توجہی سے وقت کی دھول بن سکتی ہے۔ اردو زبان کو سماجی اہمیت اور معاشتی ترقی سے مربوط کرنے میں ناکامی، انگریزی پڑائیوٹ تعلیمی اداروں میں بے تحاشہ اضافہ، اردو تعلیم کی کس مپرسی حالت اور ہماری گہری احساسِ کم تری کی بنا پر، اردو زبان اپنی تخلیقی برتری اور طاقت کھوتی چلی جا رہی ہے۔

 آج کل، خصوصًا مغرب میں، شرم بَحیثیتِ جذبہ منفی مانا جاتا ہے۔ مگر مجھے ایک جرت مندانہ بات کہنے کی اجازت دیں۔ میرے خیال میں ہمیں شرمندگی  اس پر ہونی چاہیے کہ ہم اردو سے دور ہیں۔ اگر ہم اس زبان کو صحیح طرح بول اور لکھ بھی نہ سکے، تو یہ ناکامی ہمارے لئے شرمناک ہونی چاہیے۔ ہمیں فکر مند ہونا چاہیے، ہمیں پچھتانا چاہیے کہ ہم اردو کو پیچیدہ اور مجرد خیالات کے مطابق ڈالنے سے قاصر ہیں اور ہم جملہ میں انگریزی الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں شرمندہ ہونا چاہیے کہ ہم نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہیں کہ ہم صف بَصف لاکھوں کی تعداد میں میکالے کے بچے پیدا کر رہے ہیں۔

مگر انگیزی میں کیا برائی ہے؟ میں یہاں واضع طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں انگریزی سیکھنی چاہیے۔ دورِ حاضر میں انگریزی صرف مجبوری نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے۔ مگر سیکھتے وقت ہمیں اپنے مقامی زبانوں، ثقافت اور وراثت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ انگریزی ثانوی زبان ہونی چاہیے، مرکزی نہیں۔ انگریزی زبان کے غلبہ کے شدید جمالیاتی اور لسانیاتی مسائل کے باوجود، اصل مسئلہ تہذیبی ہے۔ ٰیاد رکھیں کہ زبان کا استعمال کبھی غیر جانب دار نہیں ہوتا ہے، کیوںکہ زبان ہمیشہ ایک تہذیب اور تاریخ سے وابستہ ہوتی ہے۔ دیگر زبانوں کا استعمال صرف مختلف الفاظ اور محاورے کی بات نہیں ہے، بلکہ ایک مخلتف نفسیاتی پیراہن کو اپنانا ہے۔ کچھ لوگ شاید اس پر اصرار کریں گے کہ چائے اور کرکٹ کی طرح، ہم نے انگریزی کو اپنایا ہیں، اور ثقافت اور زبان کے درمیان حدود کو اتنا سخت نہیں ہوتا چاہتیے جیسے میں کہہ رہا ہوں۔ کیاہم نے  انگریزی کو، عربی اور فارسی کی طرح، نہیں اپنا لیا ہے، اور کیا انگریزی اپنانے سے اردو کی ہفت رنگی اور طرزِ انضمام میں اضافہ نہیں ہو گا؟  یہ نکتے قابلِ توجہ ہیں۔

 جوابًا میں عرض کروں گا کہ ہمیں جاننا چاہیے کہ برِ صغیر میں عربی اور فارسی کا انضمام ایک پر امن، قدرتی اور باہمی طرزِ عمل تھا، جس کا ایک نتیجہ  اردو زبان بھی ہے۔ اسلامی نقطہِ نظر سے اردو کا ارتقا ہزار سالہ پرانی عالمی اسلامی تہذیب کے مقامی انضمام کا نتیجہ ہے۔ جبکہ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ انگریزی زبان بنیادی طور پر جبرًا مسلط کی گئی ایک استعماری زبان ہے۔ انگریزی کا یہ غلبہ مثبت نہیں ، بلکہ اسکو منفی ماننا چاہیے۔ اس کی ایک مثال رومانوی اردو ہے، جو اردو کی موجودہ پستی کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ اور نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ اس مابعد استعماری دور میں، انگریزی زبان مغربی عالم گیریت، لادینیت اور مادیت پرستی کا اہم آلہِ انتشار ہے۔ فلسطینی دانشور وائل حلاق کے مطابق، ہم مسلمان کسی اور کی جدیدت کے بے سکون باشندے ہیں، ایک ایسی جدیدیت جو ہماری بنیادی اخلاقی اور تہذیبی وجود کے خلاف ہے۔

 تو اردو کی اس زوال پذیر حالت پر کیا کیا جا سکتا ہے؟ تنقید کرنا تو ایک بری آسان بات ہے، مگر حل تلاش کرنا بہت مشکل۔ تہدیم کرنا ہمیشہ تشکیل کرنے سے آسان رہا ہے۔

 :میں چار ابتدائی نکتے عرض کرنا چاہتا ہوں

 اولًا: اردو زبان میں معیاری تعلیم اشد ضروری ہے، جو ایک ظاہری بات ہے۔ ، انگریزی پڑائیوٹ اسکلوں میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے اردو کو فرسودہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ اردو سرکاری اسکلوں میں تدریس کا طریقہ کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ نیز سارا اعلی سطح کی سوچ اور کتابت انگریزی میں چلتی ہے، جس کا نتیجہ ایک ایسا ماحول ہے جہاں پہ اگر کوئی فرد پختہ اردو زبان بولنا بھی چاہتا ہو، تو وہ مجبورًا مجرد اور پیچیدہ اردو الفاظ سے محروم ہو گا۔ نیز پختہ اردو ڈجیٹل خواندگی وقت کی ضرورت ہے، جس کی وجہ رومانی اردو کا خاتمہ ہو گا۔ اور بھی بہت کچھ ہونا چاہیے لیکن ایسے لائحہ عمل کے لیے تعلیمی نظام میں ساختیاتی اصلاحات کا ہونا ضروری ہے۔

یہ سوچیں کہ آزادی سے 75 سال بعد، یہ سب کچھ انگریزی میں کیوں ہے؟ اس کا گہرا نفسیاتی اثر کیا ہے؟

ثانیاً: ہمیں حرف نقلی کے ردِ عمل میں ایک ثقافتی اور علمی انقلاب چاہیے۔ حرف نقلی وہ لسانیاتی سلوک ہے جہاں پر ایک زبان سے دوسری زبان کسی لفط کی براہ راست نقل کئی جاتی ہے، یعنی ترجمہ کے بغیر۔ اس کی ایک مثال اوپر کی تصویر میں ملتی ہے؛ یعنی ‘اسکول’ کہنے کے بجائے ہم ‘تعلیم گاہ’، ‘درس گاہ’ یا ‘مدرسہ’ کیوں نہیں کہہ سکتے ہیں؟ اگر ہم اس کے منطقی نتیجے تک پہنچیں تو نفسیاتی پیغام یہ ہے کہ قابلِ قدر علم صرف انگریزی میں ہوتا ہے۔ جدید اردو کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ہم انگریزی الفاظ کو بڑے پیمانہ پر استعمال کرتے ہیں۔ اس حرف نقلی کو غیر مناسب ترجیع دینے کی وجہ سے (جو کوتاہی، غفلت اور احساسِ کم تری کی علامت ہے)، ہماری اردو کے خد و خال میں بے تحاشہ خرابیاں پیدا ہو رہی ہے ۔ مگر معاملہ ناگزیر نہیں ہے ۔ اردو تین لسانیاتی اور تہذیبی ریوایات کا نچوڑ ہے: عربی، فارسی اور سنسکرت۔ جدیدیت کی دباؤ سامنا کرتے ہوئے، ہم ان تین گہری اور پختہ روایات سے مدد لے سکتے ہیں۔ عرب اور فارس میں اپنی زبانوں زندہ رکھنے کے لئے بہت کام کیا ہوا ہے ۔ جدید پیش رفتوں کا سامنا کرتے وقت ہم انکے الفاظ استعمال کر سکتے ہیں (کیا اپ کو پتہ ہے کہ عرب نے ‘انٹرنٹ براوزڑ’ کے لئے ایک مقامی لفظ رکھے ہیں؟)۔ البتہ کبھی کبھار ان الفاظ عام سماعت اور مفہوم کے لئے بھاری ہوتے ہیں۔ اگر یہ ایسا ہو، تو ان گہری لسانیاتی روایات مدِ نظر رکھتے ہوئے، الفاظ ایجاد و تخلیق کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ معاشرہ میں انگریزی کا نقصان دہ مقام تنقید کرتے وقت، میں غالبؔ کا دور کی اردو کا قائل نہیں ہوں۔ میں در حقیقت کہہ رہا ہوں کہ ہم اپنے آپ میں اتنا خودی اور ذاتی اعتماد پیدا کرنے چاہئے کہ ہم ایک خود مختار لسانیاتی راستہ چنیں۔ اگر ہم ترجمہ اور لفظ تخلیقیت کا سلوک اپنائیں، تو اردو کی صلاحتیں بَحیثیتِ زندہ اور تخلیق کار زبان بڑھیں کی۔

ثالثًا: ہم نے اردو زبان کو سماجی اور اقتصادی اہمیت سے دوبارا جوڑنا ہیں۔ ہم صرف احساسِ کم تری کے باعث انگریزی نہیں سیکھتے ہیں، مگر زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے انگریزی چاہیے ۔ میں صرف عالمی سطح کی بات نہیں کر رہا ہوں، مگر پاکستانی کی داخلی حالت پر روشنی ڈال رہا ہوں۔ جو بندہ انگریزی نہیں جانتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے، ان کو کم تنخواہ ملتی ہے، اور وہ اپنا خاندان کی معاشی حالت بہتر نہیں کر پائے گا۔ تمام اہم، محترم اور ترقی پذیر نوکریاں حاصل کرنے کے لئے انگریزی زبان بنیادی تقاضا ہے۔ لیکن لازم نہیں ہے کہ یہ روش جاری رہی۔ اگر ہم اردو کو ادارتی، سیاسی، عدالتی، ادبی اور علومی دائرے میں دوبارا اہمیت دیں تو لوگ خود بخود اردو کی طرف مائل ہونا شروع ہو جائیں گے۔

 رابیعًا: ہم نے اردو کے ساتھ محبت کا تعلق بڑھانا کرنا ہے۔شرم اور فکر کا اپنا مقام ہے، لیکن ان سے بڑی طاقت صرف محبت ہو سکتی ہے۔ کسی بھی زبان کو اپنانا انتہائی دشوار اور عمل ہے۔ اس جستجو میں محبت بنیادی تقاضا ہے: محبت وہی قوت ہے جو اپکو مشکل اوقات میں حوصلہ افزائی دے گی، ان اوقات جہاں پہ الگ زبان اپناتے وقت آپکو الجھن، گھبرائٹ اور حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بالخصوص، میرا مراد ہے کہ ہم نے اپنی وراثت، تاریخ اور ثقافت سے تعلق مظبوط کرنا ہیں ۔ زبان مذہب سے تعلق نہیں رکھتی ہے، لیکن یہ ناقابلِ اعتراض بات ہے کہ اردو زبان کی موجودگی اسلامی تاریخی پس منظر کا نتیجہ ہے۔ ہم نے اس وراثت اور شناخت میں دوبارا فخر پیدا کرنا ہیں، جو صدیوں سال کی حکمت، اور روشنی سے معمور ہے۔ کبھی مت بھولیں کہ مستعمِر کا کلیدی مقصد یہ ہے کہ مستعمَر کو اپی تاریخ اور مطلق شناخت کو کم تر مانیں۔ صاحبِ فراست اور استعمار مخالف ادیب البیرٹ میمی نے کہا تھا کہ ” محکوم قوم پر سب سے برا حملہ یہ ہے کہ وہ تاریخ سے مٹا دی جائے ۔۔۔ استعمار نے اس کو اپنی تاریخ اور قسمت میں کردار ادا کرنے کے ہر فیصلے پر قبضہ کر لیا ہے”۔

آخر کار معاملہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ کیا ہم پرواہ کریں گے؟ ہم کون ہیں؟ ہم کوں بننا چاہتے ہیں؟

پسِ لفظ: میں ہماری مقامی زبانیں پر ایک مختصر بات کرنا چاہتا ہوں۔ معاملہ بہت پیچیدہ اور ضرور کسی علاحدہ تحریر کا مستحق ہے ۔ ان زبانوں نے نہ صرف استعمار کے ہاتھ سے سنگین زخموں کھاے ہیں، مگر انکو اردو کے نام پر بھی بہت ظلم سہنے پڑے ہیں ۔ دیکھیں کس طرح سماجی تخیل میں، بابا فرید اور بلہےشاہ کی عظیم و عمیق زبان ایک مزاحیانہ اور گٹھیا زبان بن چکی ہے۔ جتنا ظلم و ذلت اردو کو برداست کرنا پڑا ہے ، ہماری مقامی زبانوں نے اس سے سو بار زیادہ سہنا ہے۔ 

لیکن بات یہ ہے کہ اردو کے فروغ ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مقامی زبانوں مزید کمتر کر دیا چاہیے۔ یہ کوئی ‘زیرو سَم گیم’ نہیں ہے۔ ایسا منطق تو ہم نے اپنا مستعمِر سے سیکھا ہیں۔ ہم اردو اور ماقامی زبانوں دونوں کا احترام، عزت اور فروغ کر سکتے ہیں۔ جو بھی اس سے انکار کرتا ہے وہ تو مغرب کے سیکھی ہوئی “روشن خیالی” منطقِ مرکزیت اور غلبت میں پھنسا ہوا ہے، جو ہمارے مستعمِر کا دائمی تحفہ ہے۔


حمزہ سربلند جامعہِ ملبورن میں مطالعہِ اسلام کا تحقیقی ماسترز کے طالبِ علم ہے۔  مغلیہ دور پر مرکوز، انکا مقالہ مولانہ مودودی اور دانشور وائل حلاق کا سیاسی- تاریخی سوچ پر متوجہ ہے۔ اپ انہیں مندرجہ ذیل انستگرام یا ای میل پہ رابطہ کر سکتے ہیں hamzasurbuland@gmail.com

Leave a Reply